Chapter 2 : Adam & Eve

After God created Adam, he lived in the heavens but began to feel lonely. One day, God made Adam fall asleep, took a rib bone from his left side—beneath the heart—and created Eve from it. God created her in complete silence so that no one could witness the process. He clothed her in a dress from heaven, just like the one Adam wore.

جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو پیدا کیا، تو وہ جنت میں رہنے لگے، مگر کچھ وقت بعد اُنہیں تنہائی محسوس ہونے لگی۔ ایک دن اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو نیند میں ڈال دیا، اور اُن کے دل کے نیچے بائیں جانب سے ایک پسلی لی، اور اُس پسلی سے حضرت حوّا کو پیدا فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت حوّا کو مکمل خاموشی سے پیدا کیا تاکہ کوئی اُس تخلیق کے عمل کا مشاہدہ نہ کر سکے۔ اُس نے اُنہیں جنتی لباس پہنایا، ویسا ہی جیسا حضرت آدم کو دیا گیا تھا۔

The reason for creating her in silence and from the rib under the heart was to signify that a woman is a precious being—meant to be cherished, protected, and held close to a man’s heart.

اُنہیں خاموشی سے اور دل کے نیچے سے پیدا کرنے کی وجہ یہ تھی کہ عورت ایک قیمتی مخلوق ہے — جسے عزت دی جائے، حفاظت کی جائے، اور مرد کے دل کے قریب رکھا جائے۔

God laid Eve down next to Adam while both were still asleep, and then gave her a soul. When Adam awoke, he saw her for the very first time. According to Islamic belief, Eve (or Amma Hawwa) is considered the most beautiful woman Allah ever created. Adam and Eve were married and lived happily in heaven.

اللہ تعالیٰ نے حضرت حوّا کو حضرت آدم کے پہلو میں لٹایا جبکہ دونوں نیند میں تھے، اور پھر اُن میں روح پھونکی۔ جب حضرت آدم بیدار ہوئے تو انہوں نے حضرت حوّا کو پہلی بار دیکھا۔ اسلامی عقائد کے مطابق، حضرت حوّا (یا اماں حوّا) وہ سب سے خوبصورت عورت ہیں جو اللہ تعالیٰ نے کبھی پیدا کی۔ حضرت آدم اور حضرت حوّا کا نکاح ہوا اور وہ جنت میں خوشی سے رہنے لگے۔

God allowed them to eat anything they wished in paradise except the fruit of one specific tree. This is when Iblis, who had vowed to misguide humanity, began to whisper thoughts into their minds. He questioned, “If heaven was created for both of you, why is there one tree you’re forbidden to eat from?” These thoughts lingered in their hearts, and eventually, they tasted the forbidden fruit.

اللہ تعالیٰ نے انہیں جنت میں سب کچھ کھانے کی اجازت دی، سوائے ایک مخصوص درخت کے پھل کے۔ تب ابلیس — جس نے انسان کو گمراہ کرنے کا عزم کیا تھا — وسوسے ڈالنے لگا۔ اُس نے کہا: “اگر جنت تم دونوں کے لیے ہے، تو پھر یہ ایک درخت ایسا کیوں ہے جس سے تمہیں روکا گیا ہے؟” یہ خیال اُن کے دلوں میں بیٹھ گیا، اور آخرکار وہ اُس ممنوعہ پھل کو چکھ بیٹھے۔

God immediately confronted them for this act of disobedience. For this first mistake in human history, Adam and Eve repented and asked God for forgiveness. God forgave them, but their heavenly garments were taken away, and they stood exposed before one another. In modesty, they covered themselves with leaves.

اللہ تعالیٰ نے فوراً اُنہیں اُن کی نافرمانی پر مخاطب کیا۔ انسانی تاریخ کی اس پہلی لغزش پر حضرت آدم اور حضرت حوّا نے توبہ کی اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی۔ اللہ نے اُنہیں معاف کر دیا، لیکن اُن کے جنتی لباس اُن سے لے لیے گئے، اور وہ ایک دوسرے کے سامنے بے لباس ہو گئے۔ شرم کے مارے اُنہوں نے درختوں کے پتے اوڑھ لیے۔

Although God forgave them, He decreed that they would now live on Earth and begin the human journey there. God sent both Adam and Iblis to Earth, along with Eve. Adam landed in Sarandib (the Arabic name for present-day Sri Lanka), and Eve landed in Jeddah, in what is now Saudi Arabia. Separated by great distance, they searched for one another for a long time.

اگرچہ اللہ نے اُنہیں معاف کر دیا، لیکن یہ فیصلہ سنا دیا کہ اب وہ زمین پر رہیں گے اور انسانی سفر کا آغاز وہاں سے ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم، حضرت حوّا اور ابلیس — تینوں کو زمین پر بھیج دیا۔ حضرت آدم سرندیب (جو آج سری لنکا کہلاتا ہے) میں اُترے، جبکہ حضرت حوّا جدہ (موجودہ سعودی عرب) میں اُتریں۔ وہ ایک دوسرے سے بہت فاصلے پر تھے، اور طویل عرصے تک ایک دوسرے کو تلاش کرتے رہے۔

According to Islamic tradition, Adam and Eve were finally reunited after 200 years at Mount Arafat, where they began their life together on Earth.

اسلامی روایات کے مطابق، تقریباً 200 سال کے بعد وہ دونوں میدانِ عرفات میں دوبارہ ملے، جہاں سے اُنہوں نے زمین پر اپنی نئی زندگی کا آغاز کیا۔

Leave a Comment