FAJAR REMINDER
میں نے اپ کو پایا میرے اللہ!
ہر درد میں اپنے ہر انسو میں، قران کی اواز پر تیز ہوتی دھڑکنوں میں میں نے محسوس کیا اللہ اپ کو اکیلے میں گڑگڑا کر مانگی دعاؤں کے سنے جانے میں میں نے ہر جگہ آپ کا نشان پایا اللہ
کاش کے بندے اپنے رب کی طرف رتے وقت میں پلٹ ائیں اللہ
ورنہ کہاری کی صفت بول بیٹھے ہیں بس یاد ہے تو رحمان اعتدال میں جینا تو بالکل ہی چھوڑ دیا ہے
تیرے بندوں نے نظر اتی ہے تو بس اپنی خواہش اللہ!
دین میں بھی بس اپنی خواہش الٰہ (معبود) اپ کو بنانا تھا ہم اپنے نفس کو بنا بیٹھے اللہ!”
میں نے آپ کو پایا، میرے اللہ! (تجاہل عارفانہ، عشق الٰہی، اور بندے کی منزلِ مقصود) 1
. تمہید: فطرت کی پکار اور اللہ کی تلاش انسانی فطرت کا بنیادی جذبہ یہ ہے کہ وہ اپنے خالق کو پہچانے اور اس سے جڑے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے: “فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا ۚ فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا” (الروم: 30) “آپ یکسو ہو کر اپنا رخ دین کی طرف کر لیں، اللہ کی بنائی ہوئی فطرت پر جس پر اس نے انسانوں کو پیدا کیا۔” جب بندہ اپنی تمام تر کوششوں، آزمائشوں، اور بھٹکنے کے بعد اللہ کو پاتا ہے، تو اس کا یہ احساس “میں نے آپ کو پایا، میرے اللہ!” روحانی تسکین، عرفان، اور حقیقی کامیابی کا نقطۂ آغاز بن جاتا ہے۔
- تجاہل عارفانہ: “پانا” دراصل “پہچاننا” ہے صوفیا کرام کے ہاں “تجاہل عارفانہ” (عارف کا بظاہر انجان بننا) ایک گہرا تصور ہے۔ اللہ کو “پانا” درحقیقت اس کی ذات، صفات، اور قربت کو پہچاننا ہے۔ مثال کے طور پر: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ستاروں، چاند، اور سورج کو “رب” ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا: “إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ” (الانعام: 79) “میں نے اپنا رخ اس کی طرف کر لیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔” یہاں “پانا” دراصل فطری شعور کے ذریعے اللہ کی وحدانیت کو پہچاننا تھا۔ 3
. عشق الٰہی: پانے کا جذبہ جب بندہ اللہ کی محبت میں ڈوب جاتا ہے، تو وہ ہر چیز میں اسے “پاتا” ہے۔ حضرت رابعہ بصریؒ کی دعا تھی: “اللّٰہم! اگر میں تیری خاطر جنت چاہوں تو مجھے جنت سے محروم رکھ، اور اگر تیرے خوف سے دوزخ سے ڈروں تو مجھے دوزخ میں ڈال دے، لیکن مجھے صرف تیری خاطر اپنا عشق عطا فرما۔” یہ وہ مقام ہے جہاں بندہ کہتا ہے: “میں نے آپ کو پایا!” یعنی اسے دنیا و آخرت کی تمام نعمتیں اللہ کی رضا کے سامنے ہیچ نظر آنے لگتی ہیں۔
آزمائشیں: کھونے اور پانے کا عمل اللہ کو پانے کے لیے بندے کو آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ حضرت یونس علیہ السلام جب مچھلی کے پیٹ میں تاریکیوں میں گھر گئے، تو پکارا: “لَا إِلَٰهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ” (الانبیاء: 87) “تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو پاک ہے،
بے شک میں ظالموں میں سے تھا۔” یہاں “پانا” دراصل اپنی عاجزی اور اللہ کی رحمت کو پہچاننا تھا۔ 5. منزلِ مقصود: اللہ کی رضا جب بندہ سچے دل سے اللہ کو ڈھونڈتا ہے، تو اللہ اسے اپنے قرب کی نوید دیتا ہے:
“وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ” (البقرة: 186) “جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے پوچھیں تو میں قریب ہی ہوں۔” یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب مومن کہتا ہے: “میں نے آپ کو پایا، میرے اللہ!” 6. عملی اقدامات: اللہ کو “پانے” کے لیے ذکر و فکر:
“یا اللہ! میں تجھے ڈھونڈتا ہوں، مجھے اپنا قرب عطا فرما۔” توبہ و استغفار: گناہوں سے پاکیزگی حاصل کرنا۔ نمازِ تہجد: رات کے آخری پہر میں اللہ سے مناجات۔ قرآن سے ربط: اللہ کے کلام کو سمجھنا۔ خلوت و مراقبہ: تنہائی میں اللہ سے گفتگو۔ 7. اختتام: پانے کی حقیقی خوشی حقیقی کامیابی یہ ہے کہ بندہ اپنی زندگی کے اختتام پر کہہ سکے: “يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ! ارْجِعِي إِلَىٰ رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً” (الفجر: 27-28) “اے مطمئن روح! اپنے رب کی طرف لوٹ جا، تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی۔” “میں نے آپ کو پایا،
میرے اللہ!” کا یہی حقیقی مفہوم ہے۔ نوٹ: یہ مضمون عشقِ الٰہی، صوفیاء کے تجربات، اور قرآن و حدیث کی روشنی میں لکھا گیا ہے۔ اگر آپ کسی خاص پہلو پر مزید مواد چاہتے ہیں تو ضرور بتائیں!