: عورت کا جہاد

پیش لفظ

جہاد اسلام کا ایک اہم رکن ہے جس کا مقصد حق کی سربلندی اور باطل کی سرکوبی ہے۔ عام طور پر جہاد کا تصور مردوں سے وابستہ کیا جاتا ہے، لیکن اسلام میں عورت کا جہاد بھی ایک اہم موضوع ہے۔ عورت کا جہاد صرف میدانِ جنگ تک محدود نہیں، بلکہ اس میں گھر کی ذمہ داریوں کی ادائیگی، معاشرے کی اصلاح، علم کی اشاعت، اور اپنی نفسانی خواہشات پر قابو پانا بھی شامل ہے۔ اس تحریر میں ہم عورت کے جہاد کی مختلف جہتوں پر تفصیل سے روشنی ڈالیں گے۔

جہاد کی تعریف اور اقسام

جہاد کا لفظی معنی ہے “کوشش کرنا” یا “جدوجہد کرنا”۔ شرعی اصطلاح میں جہاد کی دو اقسام ہیں:

  1. جہاد اصغر (چھوٹا جہاد): یہ میدانِ جنگ میں کفار کے خلاف لڑنا ہے۔
  2. جہاد اکبر (بڑا جہاد): یہ نفس کی خواہشات اور شیطان کے وسوسوں کے خلاف جنگ ہے۔

عورت کا جہاد ان دونوں پہلوؤں پر محیط ہو سکتا ہے، لیکن اس کی نوعیت مردوں کے جہاد سے مختلف ہوتی ہے۔

عورت کا جہاد اکبر: نفس اور شیطان کے خلاف جنگ

حضرت محمد ﷺ نے فرمایا:

“مُجَاهِدٌ مَنْ جَاهَدَ نَفْسَهُ فِيْ طَاعَةِ اللّٰهِ”
(صحیح ابن حبان)
ترجمہ: “حقیقی مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس کو اللہ کی اطاعت میں جھکا دے۔”

عورت کا سب سے بڑا جہاد اپنی خواہشات، غصہ، حسد، اور گناہوں کے خلاف جنگ ہے۔ اس میں شامل ہیں:

1. حیا اور پردے کا جہاد

اسلام نے عورت کو پردے کا حکم دیا ہے تاکہ وہ معاشرے میں فتنے سے محفوظ رہے۔ آج کل مغربی تہذیب کے اثرات کی وجہ سے پردے کو دقیانوسیت سمجھا جاتا ہے، لیکن ایک مسلمان عورت کا جہاد ہے کہ وہ حجاب اور شرعی پردے کو اپنائے۔

2. صبر کا جہاد

عورت کو زندگی میں مختلف آزمائشوں کا سامنا ہوتا ہے، جیسے شوہر کی نافرمانی، اولاد کی ناشکری، یا معاشی مشکلات۔ ان حالات میں صبر کرنا اور اللہ پر بھروسہ رکھنا بھی جہاد ہے۔

3. زبان کی حفاظت کا جہاد

عورتوں کو غیبت، چغلی، اور فضول باتوں سے بچنا چاہیے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

“اکثر عورتوں کو جہنم میں ان کی زبانوں کی وجہ سے داخل کیا جائے گا۔”
(طبرانی)

عورت کا جہاد اصغر: میدانِ جنگ میں شرکت

اگرچہ عام طور پر جنگ میں مردوں کو ترجیح دی جاتی ہے، لیکن تاریخ اسلام میں کئی خواتین نے بھی جہاد میں حصہ لیا ہے:

1. حضرت ام عمارہ رضی اللہ عنہا

غزوہ احد میں انہوں نے رسول اللہ ﷺ کا دفاع کرتے ہوئے شدید زخمی ہو گئیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

“اے ام عمارہ! تمہارا مقام بہت بلند ہے۔”

2. حضرت خولہ بنت الازور رضی اللہ عنہا

وہ ایک بہادر جنگجو تھیں جنہوں نے متعدد معرکوں میں شرکت کی۔

3. جدید دور میں خواتین کا کردار

آج بھی فلسطین، کشمیر، اور دیگر مقامات پر مظلوم مسلم خواتین اپنے گھروں کی حفاظت اور حق کی آواز بلند کر رہی ہیں۔

گھر کی ذمہ داری: عورت کا اصل میدان

قرآن پاک میں فرمایا گیا:

“وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ”
(الأحزاب: 33)
ترجمہ: “اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور پہلی جاہلیت کی طرح نمود و نمائش مت کرو۔”

عورت کا سب سے بڑا جہاد اپنے گھر کو اسلامی ماحول بنانا، بچوں کی تربیت کرنا، اور شوہر کی خدمت کرنا ہے۔ ایک حدیث میں آیا ہے:

“جب عورت پانچ وقت کی نماز پڑھے، رمضان کے روزے رکھے، اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے اور شوہر کی اطاعت کرے، تو اسے جنت کے جس دروازے سے چاہے داخل ہونے کی اجازت ہوگی۔”
(احمد)

علمی جہاد: تعلیم اور دعوت

عورت کا جہاد صرف گھر تک محدود نہیں، بلکہ وہ معاشرے کی اصلاح کے لیے بھی کام کر سکتی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا علم و فقہ کی بہت بڑی عالمہ تھیں۔ آج بھی خواتین کو چاہیے کہ وہ دینی و دنیاوی علوم حاصل کریں اور معاشرے کو سنواریں۔

نتیجہ

عورت کا جہاد ایک وسیع تصور ہے جس میں گھر کی ذمہ داری، نفس کی اصلاح، معاشرتی خدمت، اور اگر ضرورت پڑے تو میدانِ جنگ میں حصہ لینا بھی شامل ہے۔ اسلام نے عورت کو عزت دی ہے اور اس کے جہاد کو بھی سراہا ہے۔ ہر مسلمان عورت کو چاہیے کہ وہ اپنی زندگی کو جہاد فی سبیل اللہ بنائے۔

اللهم اجعلنا من المجاهدين في سبيلك!
(اے اللہ! ہمیں اپنی راہ میں جہاد کرنے والوں میں سے بنا دے۔)

آمین۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *