1۔ تقویٰ کا لغوی و اصطلاحی مفہوم
(الف) لغوی معنی
لفظ “تقویٰ” عربی زبان کے لفظ “وقی” سے ماخوذ ہے، جس کے معنی ہیں: “بچنا، محفوظ رہنا، کسی چیز سے حفاظت کرنا”۔
(ب) اصطلاحی تعریف
علماءِ اسلام نے تقویٰ کی تعریف یوں کی ہے:
“اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنا، اس کی نافرمانیوں سے بچنا، اور ہر لمحہ اس کے سامنے جوابدہی کا احساس رکھنا”۔
امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
“تقویٰ دل کی ایک ایسی کیفیت ہے جو انسان کو گناہوں سے روکتی ہے اور نیکیوں کی طرف راغب کرتی ہے”۔
2۔ قرآن مجید میں تقویٰ کی اہمیت اور مقام
قرآن مجید میں تقریبا 258 مقامات پر تقویٰ کا ذکر آیا ہے، جو اس کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ چند آیات ملاحظہ ہوں:
(الف) تقویٰ ہی اللہ کے نزدیک معیارِ فضیلت ہے
﴿إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّـهِ أَتْقَاكُمْ﴾
“بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔” (الحجرات: 13)
(ب) تقویٰ ہی نجات کا ذریعہ ہے
﴿وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّـهِ﴾
“اور اس دن سے ڈرو جس دن تم اللہ کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔” (البقرہ: 281)
(ج) متقین کی صفات قرآن میں
سورۃ البقرہ (آیات 2-5) میں متقین کی صفات بیان کی گئی ہیں:
- غیب پر ایمان لانا
- نماز قائم کرنا
- اللہ کی راہ میں خرچ کرنا
- آخرت پر یقین رکھنا
3۔ احادیثِ مبارکہ میں تقویٰ کی فضیلت
رسول اللہ ﷺ نے متعدد احادیث میں تقویٰ کی ترغیب دی ہے:
(الف) تقویٰ کی بنیادی تعریف
“التَّقْوَى هَاهُنَا” (صحیح مسلم)
“تقویٰ یہاں ہے”، آپ ﷺ نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا، یعنی تقویٰ دل کی پاکیزگی کا نام ہے۔
(ب) تقویٰ اخروی کامیابی کی کنجی ہے
“مَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ” (ابن ماجہ)
“جو اللہ سے ڈرتا ہے، اللہ اس کے لیے نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے اور اسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوتا۔”
4۔ تقویٰ کے مراتب اور درجات
تقویٰ تین درجات پر مشتمل ہے:
(1) عام تقویٰ (گناہوں سے بچنا)
- کبیرہ گناہوں سے اجتناب
- فرائض کی پابندی
(2) خاص تقویٰ (مشتبہ امور سے پرہیز)
- حرام کے علاوہ شبہات سے بچنا
- حدیث: “جس نے شکوک و شبہات کو چھوڑ دیا، اس نے اپنے دین اور عزت کو بچا لیا۔” (بخاری)
(3) اخص الخواص تقویٰ (ہر غیر اللہ سے دل کو پاک کرنا)
- ہر لمحہ اللہ کی یاد
- دنیاوی لذتوں سے بے رغبتی
5۔ تقویٰ کے دنیاوی و اخروی فوائد
(الف) دنیاوی فوائد
- رزق میں برکت (الطلاق: 2-3)
- مشکلات میں آسانی
- معاشرے میں عزت و وقار
(ب) اخروی فوائد
- جنت میں داخلہ (آل عمران: 133)
- اللہ کی خاص رحمت (الاعراف: 156)
- قیامت کے دن نور اور نجات
6۔ تقویٰ کیسے حاصل کیا جائے؟ عملی اقدامات
- علمِ دین حاصل کریں (کیونکہ بے علمی گمراہی کا سبب ہے)
- نماز کی پابندی کریں (نماز فحشاء و منکر سے روکتی ہے)
- توبہ و استغفار کو معمول بنائیں
- بری صحبت سے بچیں
- اللہ کے ذکر سے دل کو زندہ رکھیں
7۔ تقویٰ اور معاشرتی زندگی
- تقویٰ معاشرے میں امن، عدل اور اخوت پیدا کرتا ہے۔
- متقی لوگ امانت دار، رحم دل اور معاف کرنے والے ہوتے ہیں۔
8۔ تقویٰ کی راہ میں رکاوٹیں اور ان کا حل
- دنیا کی محبت → آخرت کو یاد رکھیں
- بری عادتیں → نیک صحبت اختیار کریں
- شیطان کے وسوسے → اعوذ باللہ پڑھیں
9۔ تاریخِ اسلام میں تقویٰ کی نمایاں شخصیات
- حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ (صداقت و تقویٰ کی مثال)
- حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ (عدل و انصاف کا پیکر)
- حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ (حیا و تقویٰ کی علامت)
- حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ (علم و تقویٰ کا نمونہ)
10۔ عصرِ حاضر میں تقویٰ کی اہمیت اور ضرورت
آج کے دور میں فتنے بڑھ گئے ہیں، لیکن تقویٰ ہی وہ ہتھیار ہے جو:
- گناہوں سے بچاتا ہے
- ایمان کو مضبوط کرتا ہے
- آخرت میں کامیابی دلاتا ہے
11۔ نتیجہ و خلاصہ
تقویٰ ہر مسلمان کا مقصدِ زندگی ہونا چاہیے۔ یہ نہ صرف آخرت کی نجات کا ذریعہ ہے، بلکہ دنیا میں بھی سکون و برکت کا سبب ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو تقویٰ کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!